Orhan

Add To collaction

بدلتی قسمت

بدلتی قسمت از مہمل نور قسط نمبر29 آخری قسط

زرینہ۔۔۔؟؟کہا ہو تم زرینہ۔۔۔؟؟نانو غصے میں زرینہ کو آوازیں دے رہی تھی۔۔۔ جی بڑی بی بی۔۔۔کیا ہوا آپ اتنے غصے میں کیوں لگ رہی ہیں۔۔۔؟زرینہ نےانکے آتےہی جھجکتے ہوۓ پوچھا۔۔ جاؤ اور ہانیہ کو بلا کر لاؤ۔۔جلدی جاؤ۔۔نانو حلق کے بل چلائی۔۔۔ جی میں ابھی بلا کر لائی۔۔۔کہتے ہوئے ہانیہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔ ہانیہ بی بی۔۔آپ کو بڑی بی بی بلا رہی ہیں۔۔ہانیہ جو ایمان کو تیار کر رہی تھی۔۔اسکی آواز پرچونکی۔۔۔ ٹھیک ہے ان سے کہے میں آرہی ہوں۔۔۔ نہیں آپ میرے ساتھ ہی چلے۔۔۔وہ اس وقت بہت غصے میں ہیں۔۔۔ نانوغصے میں۔۔؟؟لیکن کیوں۔۔؟؟ہانیہ نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔ پتا نہیں جی بس آپ میرے ساتھ چلیں۔۔۔زرینہ اسے اپنے ساتھ لے کر جانے پرباضد تھی۔۔ اچھے چلے۔۔۔ایمان آپ نے باہر نہیں آنا ٹھیک ہے۔۔میں ابھی آتی ہوں۔۔۔ ٹھیک ہے ماما۔۔۔ایمان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔۔ اور ہانیہ زرینہ کے ساتھ ہولی۔۔۔ کچھ دیر بعد ہانیہ اور زرینہ ٹی وی لاؤنج میں آئےتونانو صوفے براجمان تھیں۔۔۔ جی نانو آپ نے بلایا۔۔۔؟؟ہانیہ نے ان کے قریب آکر پوچھا۔۔۔ نانو نے ایک نظر ہانیہ پے ڈالی اور پھر زرینہ کو جانے کا اشارہ کیا۔۔۔ نانو کے اشارہ پر زرینہ فوراً وہاں سے چلی گئی۔۔۔ زرینہ کے جانے کے بعد نانو ہانیہ کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔ کس چیز کا بدلہ لے رہے ہو تم سب میرے شازل سے۔۔۔۔نانی سپاٹ لہجے میں بولی۔۔۔ نانو آپ کیا کہہ رہی ہیں میں سمجھی نہیں۔۔۔ سب سمجھ ہے تمہیں ہانیہ۔۔۔لیکن تم جان کر انجان بن رہی ہو۔۔۔۔نانو کا غصہ تو آسمان کو چھو رہا تھا۔۔ نانو میں کچھ نہیں سمجھ پا رہی۔۔۔آپ کیا کہنا چاہا رہی ہیں۔۔۔ کیوں انکار کیاتم نے شازل سے شادی کرنے سے۔۔۔صرف اسلیےکے وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے۔۔تمہارے علاوہ وہ کسی اور کا ہونا نہیں چاہتا۔۔۔بولو اسلیےکررہی ہونہ یہ سب۔۔۔ اور ہانیہ کو تو انکی بات پركرنٹ سہ لگا۔۔۔ نہیں نانو ایسی بات نہیں ہے۔۔میرے دل میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔بس میں کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔ہانیہ دکھ سے بولی۔۔۔ میں تمہیں کسی اور کا کہہ بھی نہیں رہی۔۔۔میں یہاں شازل کی بات کر رہی ہوں۔۔ پہلے آئمہ پھر شنواری پاکی اور اب تم۔۔۔کیوں اسے خوش نہیں رہنے دیتے تم لوگ۔۔۔ساری زندگی میرا شازل محبت کے لیے ترسا ہے آئمہ اور شیرازی کی ہر وقت لڑائی نے میرے بچے کو ذہنی مریض بنا دیا تھا۔۔۔اسلیےاسےمیں اپنے پس لے آئی تھی۔۔پھر اسکی زندگی میں تم آئی۔۔تمہاری وجہ سے میں نے اسے خوش دیکھا ڈپریشن سے نکلتے دیکھا۔۔لیکن جب تم اسے چھوڑکر گئی تھی وہ پھر ویسا ہی ہوگیا تھا۔۔۔اب جب اللہ‎ اسکو تمہارے ساتھ جینے کا دوبارہ موقع دے رہا ہے تو کیوں کر رہی ہو اسکے ساتھ ایسا۔۔۔نانو چیخ رہیں تھیں۔۔۔ اور ہانیہ کے تو جیسے ہونٹ سل گئے ہو۔۔۔ اسکے پاس تو سب الفاظ ہی ختم ہوکر رہ گئے تھے۔۔۔ نانو مجھے ڈر لگتا ہے کہی شازل کی وجہ سے میری بیٹیاں مجھ سے نفرت نہ کرنے لگ جاۓ۔۔۔میں اپنی بیٹیوں کی نفرت برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔ہانیہ رو دی تھی۔۔۔ کیوں کریں گی وہ تم سے نفرت۔۔۔وہ ابھی بچیاں ہیں۔۔۔انکو تم جیسا کہو گی وہ سمجھ جاۓ گی۔۔۔اور ویسے بھی شازل اگر تم سے اب بھی ویسی ہی محبت کرتا ہے تو مجھے یقین ہے وہ تم سے جوڑی ہرچیز سے محبت کریں گا۔۔۔ہانیہ ان کے سگے باپ نے ان سے محبت نہیں کی۔۔۔تو تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو کے سگے باپ سے زیادہ کوئی ان سے محبت نہیں کر سکتا۔۔۔اور میں تمہیں یقین دلاتی ہوں کہ جس دن تمہیں لگے کہ شازل تمہاری بچیوں کو وہ محبت نہیں دے رہا جو اسے دینی چاہیے تو میں خود اسے کہو گی کے وہ تمہیں چھوڑ دے۔۔۔نانو نے اسے یقین دہانی کرائی۔۔ جس پر ہانیہ خاموش ہوگئی۔۔۔


کچھ دن بعد۔۔۔۔ ہانیہ شنواری ولد نور شنواری کیا آپ کو شازل شیرازی ولدعثمان شیرازی دو لکھ سیکا راج میں قبول ہے۔۔؟؟قاضی صاحب نے پوچھا۔۔۔ ہانیہ نے نظر اٹھا کر شازل کی طرف دیکھا جو اسکے منہ سے قبول ہے سننے کا منتظر تھا۔۔۔ قبول ہے۔۔۔ہانیہ نے آہستہ سے لب ہلائے۔۔۔ ہانیہ کے ہاں کہنے پر تو جیسے شازل کو آج دنیا کی ہر خوشی مل گئی ہو۔۔۔اسکا بس نہیں چل رہا تھا ابھی اور اسی وقت ہانیہ کو سب سے چرا کر کہی دور لے جاۓ۔۔۔۔۔ اور کوئی خاموش کھڑا اپنی بے نام محبت کے مرنے کا ماتم کر رہا تھا۔۔۔ بہت بہت مبارک ہو میرے بچے۔۔نانو نے محبت سے شازل کی پیشانی پر بوسہ دے کر کہا۔۔۔ آج بہت وہ خوش تھا لیکن ایک دکھ کی وجہ سے اسکے ہونٹو پے آتی مسکراہٹ ماند پڑ جاتی تھی اور وہ تھا اسکی ماں کا اس وقت وہاں موجود نہ ہونا۔۔۔آئمہ کا خیال آنے پر شازل کے آنکھو کے گوشے بھیگ گئے تھے۔۔۔ نہیں میری جان رونے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔۔میں جانتی ہوں تم اس وقت آئمہ کو مس کر رہے ہو۔۔۔پر میں نے بھی تو تمہیں ماں بن کر پالا ہے۔۔کیا میری محبت میں کبھی کوئی کمی آئی ہے۔۔۔؟؟نانو نے اسکی آنکھو میں دیکھ کر پوچھا۔۔۔وہ جانتی تھی کہ اس وقت وہ آئمہ کو بہت یاد کر رہا ہے۔۔۔ نہیں نانو وہ تو بس ایسے ہی۔۔۔شازل بس یہی کہہ سکا۔۔ ہانیہ کو دیکھو بہت مشکل سے اسے ہمت دی ہے میں نے ۔۔۔اگر تم کمزور پڑے تو وہ ٹوٹ جاۓ گی۔۔۔ جی نانو۔۔۔ بہت بہت مبارک ہو آپی۔۔۔سجل نے اسے گلے لگاتے ہوۓ بولی۔۔۔ جس پر ہانیہ با مشکل ہی مسکرائی۔۔۔قسمت کیسے بدلتی ہے اسے سی ایس ایس آفیسر بننا تھا شازل کو اسکا ہونا تھا لیکن اس سے پہلے اسے ہزار تکلیفیں اٹھانی تھیں۔۔۔۔بہت سے دکھ دیکھنے تھے۔۔۔لوگو کی اصلیت جاننی تھی محبت کرنے والے رشتے کیسے بدلتے ہیں یہ دیکھنا تھا۔۔۔۔ کیا ہوا آپی کہا کھو گئیں۔۔؟؟سجل کو کھوۓ دیکھ کر ہانیہ نے پوچھا۔۔۔ اسکی آواز پر ہانیہ چونکی۔۔۔ کہی نہیں۔۔اچھا ہوا تم اور ثمر آئے۔۔۔ہانیہ ثمر کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔جو رومان سے باتیں کرنے میں مصروف تھا۔۔۔ کیوں نہ آتے ہم۔۔۔ہماری بہن کی شادی تھی ہم نہ آتے تو کون آتا۔۔؟میں تو شکر ادا کرتی ہوں آپ نے نانو کے کہنے پر شازل بھائی سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔آپ خوش ہے نہ۔۔۔؟؟آخری بات سجل نے اسکی آنکھو میں دیکھ کر پوچھی۔۔۔ پتا نہیں سجل۔۔۔ہانیہ سر جھکا کر بولی۔۔۔ پتا چل جاۓ گا جب شازل بھائی آپ کو ڈھیر ساری محبت دینگے۔۔۔سجل نے یقین دہانی کرائی۔۔۔ وہ ایمن ایمان کہا ہے نظر نہیں آرہیں۔۔۔؟؟ہانیہ نے ان دونو کا خیال آنے پر پوچھا۔۔۔۔ وہ تو زارون کے ساتھ کھیل رہی ہیں۔۔۔سجل نے آگاہ کیا۔۔۔ دھیان سے کہی وہ گرا نہ دے زارون کو ۔۔۔ہانیہ نے فکر مندی سے کہا۔۔۔ نہیں آپی بوا کی بیٹی ہے ان کے پاس۔۔۔ یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔


رات کو شازل روم میں آیا تو اسکی نظر سامنے بیٹھی اپنی دشمن جاں پر پڑی۔۔۔جو سادہ سے لال جوڑے میں کسی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی۔۔۔ شازل چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اسکے قریب آ کر بیٹھا گیا۔۔۔اور اسکی طرف دیکھا جو نظریں جھکائیں بیٹھی تھی۔۔۔ شکریہ ہانی میری زندگی میں آنے کے لیے۔۔میں اپنے اللہ‎ کا جس قدر بھی شکر کروں کم ہے کہ اس نے تمہیں مجھے دیا۔۔۔شازل کے ایک ایک لفظ میں محبت جھلک رہی تھی۔۔۔۔۔ میرا کس بات کا شکریہ شازل۔۔۔ہمارا ساتھ قسمت میں لکھا تھا اور آج ہم ایک ہو گئے۔۔۔مجھے یقین ہے آپ میری بیٹیوں کو ان کے باپ سے بڑھ کر پیار دینگے۔۔۔ہانیہ کو بس اپنی بیٹیوں کی فکر تھی۔۔۔ شازل اسکی بات پر مسکرا دیا۔۔۔ہانیہ مجھے تم سے زیادہ اب ان سے محبت ہے کیونکہ وہ تمہارے وجود کا حصہ ہیں۔۔۔تمہیں کبھی میری وجہ سے اس بعد کی شکایت نہیں ملے گی۔۔۔شازل اسکا ہاتھ تھام کر محبت سے کہہ رہا تھا۔۔۔ اب کی بار ہانیہ خاموش رہی۔۔۔ ہانیہ کے خاموش ہونے پر شازل نے اسے پکارہ۔۔۔۔ ہانی۔۔۔؟؟ ہانیہ نے نظر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا۔۔۔ جی۔۔۔ کیا تم مجھ سے اب بھی ویسی ہی محبت کرتی ہو جیسے کچھ سال پہلے کرتی تھی۔۔۔۔شازل اب اسکے ہاتھ کو اپنے دونو ہاتھو میں چھپا کر پوچھا رہا تھا۔۔۔ شازل کے سوال پر ہانیہ فوراً اسکے گلے لگ گئی۔۔۔شازل میں آج بھی آپ سے اتنی ہی محبت کرتی ہوں جتنی کچھ سال پہلے کرتی تھی۔۔۔آپ سے تو کبھی چاہ کر بھی میں نفرت نہیں کر پائی۔۔۔میں عماد کی بیوی بن تو گئی تھی لیکن پھر بھی آپ میرے دل سے نہیں نکلے۔۔برا بھلا ہی سہی پر روز آپ کویادکرتی تھی۔۔۔ہانیہ زارو قطار روئے جا رہی تھی۔۔کب سے یہ الفاظ اس نے اپنے دل میں دبا کررکھے تھے۔۔ ہانیہ کےآنسوں سےشازل کاکندھابھیگ گیاتھا ۔۔۔ اچھابس اب تمبلکل نہیں روگی۔۔ورنہ میں ایک لگاؤنگا۔۔۔شازل اسکےآنسو صاف کرتے محبت سے بولا۔۔۔ تو کیا آپ مجھے مارا بھی کریں گے۔۔؟؟ہانیہ نے بی یقینی سے پوچھا۔۔۔ تو کیا یہ حق صرف تمہیں ہی ہے۔۔۔؟؟شازل ہنسی دبا کر بولا۔۔۔ آپ کب تک مجھے اس تھپڑ کا تانا دیتے رہیں گے۔۔۔ ہاے صدقے۔۔اب نہیں کہوگا۔۔۔ لیکن ایک بات تو ہے۔۔۔ کیا۔۔۔ لگابہت زور سے تھا۔۔۔کہتے ہوئے خود ہنس دیا تھا۔۔۔ اور ہانیہ نے اسکی بات پر اسے گھورا۔۔۔ جس پر شازل نے اسکے پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کی۔۔۔آئی لو یو ہانی۔۔۔ ہانیہ تو بس اسکی جسارت پر شرما کر رہ گئی۔۔۔۔ آج انکی ملن کی رات تھی آج دو محبت کرنے والے ہمیشہ کے لیے ایک ہوگئے تھے۔۔۔


اگلی صبح ہانیہ فریش ہوکر باہر آئی تو خود کو آئینےمیں دیکھا۔۔آج اسکے چہرے پر صرف اورصرف شازل کی محبت کے رنگ تھے۔۔۔کس قدر محبت کرتا ہے یہ شخص مجھ سے۔۔ہانیہ نے مڑ کر شازل کو دیکھ جو بے خبر پر سکون نیند سو رہا تھا۔۔۔لیکن اسکی آنکھو کےہلکے بتا رہے تھےکہ ایک عرصےسے وہ سکون سے نہیں سویا۔۔۔ہانیہ کا دل نہیں کیا تھا اسے ایسے اٹھانے کو پر آفس بھی جانا تھا اسلیے شازل کو اٹھانا ضروری تھا۔۔۔ شازل اٹھ جاۓدیرہورہی ہے۔۔آپ نےآفس بھی جانا ہے اور میں نے بھی۔۔۔ہانیہ بالو میں برش کرتے ہوۓ بولی۔۔۔ پر شازل اسکی آواز پر ٹس سےمس نہ ہوا۔۔۔ ہانیہ نے جب دیکھاکہ وہ نہیں اٹھا تو خود اس کو اٹھانے کے لیے قریب گئی۔۔۔ شازل اٹھ جائیں دیر ہو رہی ہے آفس نہیں جانا۔۔۔ہانیہ اسکے بالو میں انگلیاں پھیرتی محبت سے بولی۔۔۔اسے ہمیشہ سے اسکے بالو سے بہت محبت تھی کبھی کوئی دوست پوچھتی تھی کہ تمہیں شازل کی سب پیاری چیز کیا لگتی ہے تو وہ بے ساختہ کہتی اسکے بال اور پھر خود ہی اس بات پر ہنس دیتی۔۔۔ ایسے جگاؤ گی تو بھلا کس کا دل کرتا ہے اٹھنے کا میری جان۔۔۔شازل خمار بھرے انداز میں بولا۔۔۔ شازل کی آواز پر چونکی۔۔۔ ویسے ہماری عمر اب رومنس والی نہیں ہے ہانیہ ناگواری سے بولی۔۔۔۔ ارے جب میرے دانت بھی ایک دو رہ جاۓ گے نہ رومنس کرنا تو میں تب بھی نہیں چھوڑوگا۔۔۔شازل اسکا ہاتھ چم کر بولا۔۔۔ افف شازل آپ بہت باتیں بناتے ہیں۔۔۔ہانیہ منہ بنا کر بولی۔۔۔۔ یار اب کیا کروں تمہارے علاوہ کبھی کسی سے ایسے باتیں کرنے کا دل نہیں چاہا تو وہ جو دل میں باتیں جمع ہوئی تھیں۔۔ وہ تم سے ہی کرونگا۔۔۔ کس دوسرے بارے میں تو سوچنا بھی مت۔۔۔سمجھے آپ۔۔۔ہانیہ دانت پیس کر بولی۔۔۔ یہ تو تمہارا بڑا پن ہے جو مجھ سے شادی کرلی ورنہ تو مجھ سے کسی نے بھی نہیں کرنی تھی۔۔۔ شازل کی بات پر ہانیہ ہنس دی۔۔۔اچھا آپ ابھی تو اٹھے سب انتظار کر رہے ہونگے۔۔۔کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ابھی وہ آگے ہی بڑھی تھی کہ شازل نے اسکا ہاتھ تھام کر روکا۔۔۔ ہانیہ نے مڑ کر اسکی طرف دیکھا۔۔۔ یار ایک بار آئی لو یو ہی کہہ دو۔۔۔شازل نے التجا کی۔۔۔ میں ایمن ایمان کو دیکھنےجارہی ہوں۔۔۔ہاتھ چھوڑا کر دروازے کی طرف بھاگی۔۔۔ آج تو میں تمہارے منہ سے کہلواکر ہی رہونگا۔۔۔ دیکھیں گے۔۔۔شرارت سے بولتی کمرے سے چلی گئی۔۔۔ اور اسکے جاتے ہی شازل ہنس دیا تھا۔۔۔شکر ہے الله تیرا میری خوشی میری ہانیہ مجھے دینے کا۔۔۔شازل کے منہ سےبے ساختہ نکلا۔۔۔۔۔


تم کہا جا رہے ہو۔۔۔؟؟رومان کو بیگ لے کر نکلتے دیکھ کر شازل نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔ میری ابھی دس بجے کی فلائٹ ہے۔۔۔رومان نے آگاہ کیا۔۔ لیکن یہ بات تو تم نے نہیں بتائی۔۔۔دادو نے ابرواچکا کر پوچھا۔۔۔ بس نانو شازل اور ہانیہ کے نکاح کی وجہ سے بتانا یاد نہیں رہا تھا۔۔۔ تو کوئی بات نہیں ٹکٹ کینسل کروا دیتے ہیں۔۔ہانیہ جو ایمان کو ناشتہ کروا رہی تھی فوراً بولی۔۔ ہانیہ کی آواز پر رومان نے ایک نظر اسکی طرف دیکھااور فوراً نظریں چرا لیں۔۔۔وہ کیا بتاتا کہ وہ اسکی وجہ سے ہی تو جا رہا ہے۔۔۔اسے ڈر تھا اگر وہ کچھ عرصہ اور یہاں رہا تو کہی ہانیہ سے کچھ کہہ ہی نہ دیں۔۔جس سے وہ ساری زندگی خود کو معاف نہ کر سکے۔۔۔ نہیں مجھے جانا ہے ماما بہت یاد کر رہی ہیں مجھے۔۔۔رومان شازل کو دیکھ کر بولا جس کی گود میں ایمن تھی۔۔۔۔ ٹھیک ہے اب جب تم فیصلہ کر ہی چکے ہو تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔۔۔شازل ناگواری سے بولا۔۔۔ یار پھر آؤنگا نہ۔۔رومان اسکے گلے لگتے ہوۓ بولا۔۔۔ پکا آؤ گے۔۔؟؟ہانیہ نے پوچھا۔۔۔ جی۔۔۔ دادو سے ملنے کے بعد وہ ہانیہ کے ساتھ بیٹھی ایمان سے ملا۔۔۔اور اسکے دونو رخسارو پر پیار دیا۔۔۔ میں تمہیں یاد کیا کرونگی۔۔۔ہانیہ چہک کر بولی۔۔۔ اور میں آپ کو کبھی نہیں بھولونگا۔۔رومان دکھ سے بولا۔۔۔ چلو آو میں تمہیں خود ایئر پورٹ چھوڑ کر آتا ہوں۔۔شازل ایمن کو ہانیہ کو دیتے ہوۓ بولا۔۔ نہیں شازل میں خود چلا جاؤنگا۔۔۔بس ایک ریکویسٹ ہے تم سے۔۔ ہاں بولو۔۔۔شازل سنجیدگی سے بولا۔۔۔ ہانیہ کا بہت خیال رکھنا۔۔۔قسمت والو کو ہانیہ جیسی لڑکی ملتی ہے۔۔۔اور تم انہی میں سے ہو۔۔۔ تم فکر مت کرو۔۔۔۔میں اسکا بہت خیال رکھونگا۔۔۔اور رہی بات قسمت والو کی تو تم نے سہی کہا میں واقعی بہت لکی ہوں۔۔۔اور وہ بھی ہانیہ جیسی جس کا ہاتھ ہی ماشاءالله سے۔۔۔شازل نے ہانیہ کو دیکھتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی۔۔جو اس وقت شازل کو کھا جانے والی نظرو سے دیکھ رہی تھی۔۔۔ اور اسکی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے نانو اور رومان ہنس دیے۔۔۔ ختم شد۔۔۔

   0
0 Comments